یہ نسلِ نو  پوچھ رہی ہے

ساخت وبلاگ

سالِ نو!

یہ نسلِ نو پوچھ رہی ہے
از ✒️:ابراہیم شہزاد


9 مئی کا دن بھی کیا دِن ہے!۔ ہماری ملکی تاریخ میں بدترین آئین شکنی کا دن۔ اس روز ریاستی اداروں کو نذر آتش ، مسمار اورہمارے قومی ہیروز کے مجسموں کو پاش پاش کیا گیا۔ بعدازاں سرکاری ادارے حرکت میں آئے۔ سینکڑوں ملزم جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے بند کر دیے گئے۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ بھلا ریاست اور ملک کی آئین شکنی کوئی معمولی بات تھوڑی ہے کہ جس پر خاموش رہا جائے۔ 9 مئی کو جن لوگوں نے پاکستان کی املاک کو نقصان پہنچایا وہ سب سزا کے مستحق ہیں لیکن صرف 9 مئی کے مجرموں کو ہی سزا کیوں؟

ہر وہ دن جس میں پاکستان کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہو وہ بھی 9 مئی کی طرح قابل افسوس اور قابل مذمت ہونا چاہیے اور 9 مئی کے ملزموں کی طرح ہر وہ شخص مجرم ہے جو پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ایک انسان کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے اگر اغوا کر لیا جائے اور سالوں سال غائب رکھا جائے تو کیا یہ جرم ۹ مئی سے کم ہے؟۔

کہا جاتا ہے کہ "موت کے بعد بچھڑنے" سے کہیں زیادہ دکھ، "موت سے پہلے بچھڑنے والے" کا ہوتا ہے کیونکہ بچھڑنے والے کی واپسی کی آس اہلِ خانہ کو سولی پر لٹکائے رکھتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ لواحقین کو اس اغوا شدہ شخص کا کہیں ذکر کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ مسنگ پرسنز کی بات کرنے والوں کو بھی سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔اب سیکورٹی کے حوالے سے ملکی فضابالکل فلسطین اور مقبوضہ کشمیر جیسی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو سرگوشیاں شوربن جاتی ہیں، سکوت نقارہ بن جاتا ہے، زنجیر اور رسن کے خدشے ختم ہو جاتے ہیں۔
لگتا ہے کہ وہ ریاست جوماں ہوتی ہے وہ تو اپنا وجود کھو چکی ہے۔ بلوچستان کے لوگ اب ماں (ریاست) کے پاس اپنی شکایات لے کر اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔ وہ بس یہی درد لیے پاکستان کے کونے کونے میں اپنی آواز پہنچانا چاہتے ہیں لیکن ماں ہے کہ سُنتی ہی نہیں۔
ماں کے ہاں ان کی شنوائی نہیں ہو رہی ، ماں کی ممتا جاگ نہیں رہی اور ماں کے شاید جذبات و احساسات ہی مر چکے ہیں۔

افسوس! دسمبر کی ٹھٹھرتی راتوں میں دھرتی کے بیٹے اپنے پیاروں کی خبر لینے کے لئے اسلام آبادمیں اپنی ماں کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ماں کے ان بدقسمت بیٹوں پر اسلام آباد کی یخ بستہ رات میں ٹھنڈے پانی کے شیلنگ پائپ کھولے جاتے ہیں۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس محافظین نے ڈنڈوں سے ان کی درگت بنائی۔ میڈیا پرسنز نے تو انتہا ہی کر دی۔
کیا ماں سے بیٹے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس ملک میں صرف ۹ مئی کے واقعے میں ملوث لوگ ہی مجرم کیوں ہیں؟

یہ لوگوں کو اغوا اورلاپتہ کرنےوالوں کو کب مجرم کہا جائے گا اور انہیں کب کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا؟
یہاں تو ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے ،درخواست دینے والے اور پریس کانفرنس کرنے والے یہ سب مجرم ہیں۔

کیا اس دھرتی ماں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے کہ اس دھرتی پر ظالموں کو کب مجرم کہا جائے گا؟
کب آدھی رات کے وقت عدالتوں کے دروازے ظالموں کو سولی پر لٹکانے کیلئے کھلیں گے؟اگر دھرتی کے لاپتہ بیٹے مجرم ہیں تو ان کو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟!
اگر یہ مجرم نہیں تو پھر غیرقانونی طور پر لوگوں کو اغوا کرنے والوں کو گریبان سے کون پکڑے گا؟؟!اب لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ریاست سب کے لیے ممتا کا مظاہرہ کرتی ہے یا ریاست کی ممتائیت صرف چند خاص خاندانوں تک محدود ہے؟
ایک طرف ریاست اشتہاری مجرموں کا ائیرپورٹ پر استقبال کیاجاتا ہے۔ پوری عدالت ائیرپورٹ پر ہی مجرم کی بلائیں لینے کے لئے پہنچ جاتی ہے تو دوسری طرف ملک کے گوشہ و کنار میں بے شمار افراد بے جرم و خطا لاپتہ ہیں۔ ماں اس تضاد کی شکار کیوں ہے؟
سالِ نو یہ نسلِ نو اپنی ماں کےبارے میں کچھ جاننا چاہتی ہے۔ یہ نسلِ نو اپنی ماں سے ڈر رہی ہے۔ سالِ نو کیا تیرے پاس کوئی جواب ہے اس سوال کا کہ کیا کبھی مائیں احساس و جذبات سے عاری بھی ہوا کرتی ہیں؟

تازہ ترین

ہمیں وٹس ایپ پر جوائن کیجئے

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 38 تاريخ : دوشنبه 11 دی 1402 ساعت: 13:59